فاطمیہ


رسول خداؐ کی پارۂ جگر حضرت فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا کی ولادت باسعادت بعثت کے پانچویں سال یعنی ہجرت سے آٹھ سال قبل ہوئی ۔ آپ جناب خدیجہؑ کی آخری صاحبزادی اور خاتم الانبیاء رسول اکرمؐ کی اکلوتی بیٹی تھیں۔ صدیقہ طاہرہ ؑمکہ سے مدینہ کی طرف ہجرت کا شرف حاصل کیا لیکن اس کا فکر انگیز رخ یہ بھی ہے کہ آپ نے رسول خداؐکی ہجرت کے بعد رات بھر تلواروں کے حصار میں صبر و استقامت کے ساتھ شجاعت کے جوہر دکھائے۔ یہ عمر وہ ہوتی ہے کہ معمولی خوف کے ماحول میں گریہ و زاری شروع ہوجاتی ہے ، رات اس طرح گزاری کہ گھر کے باہر تلواروں کا پہرہ تھا اور گھر کے اندر سناٹوں کا ۔نہ اضطراب کا مظاہرہ ، نہ چیخنے چلانے کی آواز اور نہ ہی سسکیوں کی آہٹ،آپ نے ساری رات جنگ کی حالت میں بسر کی ۔

ہجرت کے دوسرے سال آپ کی شادی حقیقی وصی رسولؐ حضرت علیؑ سے ہوئی ، آنحضرت نے دوسرے امیدواروں کو یہ کہہ کے اوقات بتائی کہ فاطمہ کی اس شادی میں میرے ارمانوں کو ذرا بھی دخل نہ تھا بلکہ یہ سب کچھ خدا کے حکم سے ہوا ہے ، زمین سے پہلے خدا نے فاطمہ کا عقد آسمان پر کردیاہے ۔یہ ابد آثار مثالی زندگی اسلام ، قرآن اور احکام الٰہیہ کا نمونہ بھی ہے ، اس زندگی کا جس رخ سے بھی تجزیہ کیاجائے قیامت تک ازدواجی زندگی کے بارے میں استنباط احکام کیا جاسکتاہے کیونکہ زوجہ اور شوہر دونوں ہی معصوم تھے ۔اس حسین و مقدس معاشرت کا نتیجہ حسن و حسین ، زینب و ام کلثوم اور محسن کی صورت میں جلوہ گر ہوا ، حسن و حسین معصوم اور امام تھے ، دین خدا اور رسالت کے محافظ ...زینب و ام کلثوم جہاد نسواں کا زریں شاہکار اور محافظ امامت تھیں ، تحفظ امامت کی جس نازک اور حوصلہ شکن ڈگر سے بنت رسول کی یہ شاہزادیاں گزریں ہیں اسے" قریب بہ عصمت"کردار ہی کہاجاسکتاہے ۔


جناب محسن کو قتیل سقیفہ کہنا چاہئے ، آپ نے اپنے وجود کے ذریعہ ظلم و ستم کی نشاندہی کی ، بالواسطہ طور سے آپ نے حضرت علیؑ کی ولایت و امامت کا اعلان فرمایا،تاریخ امامت و ولایت کے اولین شہید اور قتیل ۔

ولایت کے تحفظ کے سلسلے میں آپ کی آواز اولین آواز تھی، آپ کا جہاد اولین جہاد تھا اور ولایت امیر المومنین پر مرمٹنے والی پہلی شہیدہ تھیں ، فدک کے لئے آپ کا جہاد و احتجاج اس قدر عمیق اور ہمہ گیر تھا کہ باطل بھی کف افسوس مل کر اثبات حق پر مجبور ہوگیا ، انداز پیکار میں ایسی جامعیت تھی کہ آج بھی زبان زد خاص و عام ہے ۔

جناب محسن کی شہادت در اصل صدیقہ طاہرہ کی شہادت کا مقدمہ تھی ، اس عظیم مدافعہ ولایت نے اتنے بڑے بڑے صدمات کے باوجود بھی چپ چاپ بیٹھنے پر اکتفا نہیں کی بلکہ پے در پے کوششیں کرتی رہی تاکہ کسی طرح امیر المومنین کا حق خلافت انہیں واپس کردیاجائے اور بالآخر اسی راہ میں آپ نے اپنی جان بھی قربان کردی ۔

صدیقہ طاہرہ فاطمہ زہراء ( س) کی یہ سراسر نورانی اور معنوی زندگی ہر طرح کے آسمانی احترام و اکرام کی سزاوار ہے، وہ نگاہ خدا میں تمام عورتوں کا انتخاب ہیں ، انہوں نے اپنے کردار کی پاکیزگی سے عورتوں کو معراج عطا کی ، آپ کاتنہا وجود اس بات پر مکمل گواہ ہے کہ عورتیں بھی معنویت کے عظیم درجات حاصل کرسکتی ہیں اور ان مقامات تک پہنچ سکتی ہیں جہاں تک عام مردوں کی رسائی نہیں ہے ۔

ارباب نظر ! حضرت صدیقہؑ کی زندگی اور شخصیت و کردار کا مطالعہ ہر انسان کو مختلف مرحلوں اور شعبوں میں استقامت اور سخت ترین حالات و ماحول میں بھی صبر و ضبط کا درس دیتاہے ۔رسول خداؐ کی وفات کا رنج و غم اور بیماری کی تکلیف بھی آپ کو حق و حقانیت کے دفاع سے باز نہ رکھ سکی ، آپ نے پوری قوت و طاقت کے ساتھ حق کی مدد کی اور اپنی گفتگو، انداز و اطواراور جہد مسلسل کے ذریعہ حضرت علی ؑکی حقانیت کو ثابت کرنے کی کوشش کی ہے ۔۱۸/ برسوں پر مشتمل آپ کی زندگی میں وہ تمام چیزیں موجود ہیں جو ایک اچھی اور قابل قدر زندگی گزارنے کے لئے ضروری ہوتی ہیں ۔بس ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اس زندگی کو قریب سے محسوس کریں اور اسے اپنے دل و دماغ میں اتارنے کی کوشش کریں ۔

یہ خصوصی گوشہ اسی مقصد کے تحت قائم کیاگیاہے تاکہ صدیقہ طاہرہ (س) کی زندگی کے قابل قدر اور آفاقی کارناموں سے آج کا انسان آشنا ہو ، انہیں اپنی زندگی سنوارنے کا وسیلہ قرار دے اور شہزادی کی ولادت و شہادت کے مخصوص ایام میں ان مطالب سے بھرپور استفادہ کرسکے ؛ اس خصوصی گوشہ کو مفید بنانے کے لئے ہم نے اسے چار حصوں میں تقسیم کیاہے :

خدا کرے حضرت صدیقہ طاہرہ ؑ کی ملکوتی اور آسمانی بارگاہ میں ہماری یہ ناچیز کاوش شرف قبولیت سے ہمکنار ہو اور آپ اس سے خاطر خواہ استفادہ کرسکیں ۔ ہمیں اپنی خصوصی دعاؤں میں ضروریاد رکھئے گا۔

والسلام : شعور ولایت فاؤنڈیشن